ہرنی اور چیتا کی کہانی
یہ کہانی ایک ہرنی اور چیتے کی ہے جو جنگل کے بیچوں بیچ ایک دلچسپ مہم کا حصہ بنتے ہیں۔ ہرنی ایک نرم دل، پرسکون اور نازک جانور ہے جس کا زیادہ وقت اپنے بچوں کی حفاظت، خوراک کی تلاش اور زندگی کے سکون میں گزرتا ہے۔ دوسری طرف، چیتا جنگل کا ایک خطرناک، تیز رفتار اور شکاری جانور ہے جس کا مقصد شکار کرنا اور اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنا ہے۔
کہانی کا آغاز
کہانی کا آغاز اس طرح ہوتا ہے کہ ہرنی جنگل کے بیچ ایک پرسکون علاقے میں اپنے بچوں کے ساتھ گھاس کھا رہی ہوتی ہے۔ اس کے بچے اپنے بچپنے کی معصومیت اور خوشیوں میں مگن ہوتے ہیں۔ ہرنی ہمیشہ محتاط رہتی ہے، کیوں کہ اسے معلوم ہے کہ جنگل میں خطرات ہر سمت سے اسے گھیر سکتے ہیں۔
چیتے کی انٹری
ایک دن چیتا، جو بھوکا ہوتا ہے اور شکار کی تلاش میں نکلتا ہے، ہرنی کو دیکھتا ہے۔ وہ اپنی غیر معمولی رفتار، طاقت اور مہارت کے ذریعے شکار کو پکڑنے کا عادی ہوتا ہے۔ چیتا ہرنی کو شکار کے طور پر دیکھتا ہے اور فیصلہ کرتا ہے کہ اس پر حملہ کرے گا۔
ہرنی کی چالاکی اور سمجھداری
جب ہرنی کو چیتے کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے، تو وہ اپنی ساری چالاکی اور سمجھداری سے کام لیتی ہے۔ اس کے لئے دوڑنے کا عمل زندگی اور موت کا سوال بن جاتا ہے۔ ہرنی اپنی پوری طاقت کے ساتھ دوڑتی ہے، مگر چیتا بھی پیچھے نہیں ہٹتا۔
ہرنی کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ رفتار میں چیتے کا مقابلہ نہیں کر سکتی، لیکن وہ اپنی ذہانت سے کام لے کر ایسی راہیں اختیار کرتی ہے جو اسے چیتے سے بچا سکیں۔ ہرنی ایسے راستوں پر جاتی ہے جہاں جھاڑیاں، درخت، اور مختلف قسم کی رکاوٹیں چیتے کو سست کر سکتی ہیں۔ چیتا اس کا پیچھا کرتا ہے، مگر ہرنی کی یہ چالاکی اس کو کچھ وقت کے لئے بچا لیتی ہے۔
انجام
آخرکار، چیتا اپنی بے پناہ رفتار کے باوجود تھک کر رہ جاتا ہے اور ہرنی بچ نکلتی ہے۔ ہرنی کی یہ کہانی ہمیں سبق دیتی ہے کہ عقل اور سمجھداری سے بھی بڑی مشکلات کا سامنا کیا جا سکتا ہے، چاہے سامنے کوئی طاقتور دشمن ہی کیوں نہ ہو۔
سبق
اس کہانی سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ زندگی میں ہمیں بعض اوقات چیتے جیسے مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، مگر ہرنی کی طرح سمجھداری اور چالاکی سے ان مشکلات کو دور کیا جا سکتا ہے۔
وہ آج پھر بھوکا رہ گیا تھا اس کی ترکیب آج پھر ناکام گئی تھی۔ہرنی اس کی سوچ سے زیادہ محتاط تھی ۔وہ ہرنی کے نکل بھاگنے پر پاگل ہو گیا تھا۔پہلے تو اسے بہت غصہ آیا مگر پھر اس نے تالاب سے خوب سارا پانی پیا اور جب دماغ ٹھنڈا ہوا اور وہ کچھ سوچنے سمجھنے کے قابل ہوا تو پھر اس نے آئندہ کے لئیے پلان بنانا شروع کیا اور اب کی بار اس نے بیوقوفی کے ہر عمل پر اچھے سے غور کیا تاکہ اب کہیں کوئی جھول نہ رہ جائے۔
خوب سوچ بچار کے بعد اچھا سا پلان نا کر وہ مطمئن ہو کر سونے کیلیئے لیٹ گیا۔صبح ہوئی تو وہ بہت خوش خوش اٹھا آج اس نے اپنے نئے پلان کے مطابق ہرنی پر ھاتھ صاف کرنا تھا۔
ہرنی صبح سو کر اٹھی تو بڑے اچھے موڈ میں تھی ۔رات اس نے جس طرح اس نے اپنی جان چیتے سےبچائی اس پر وہ بہت خوش تھی۔وہ اسے اپنی ہوشیاری سمجھ رہی تھی۔ہرنی نے چیتے کو احمق گردانا تھا ۔جبکہ دشمن کو کبھی کمزور نہیں سمجھنا چاہیئے وہ مزے سے اٹھی اور تالاب کی طرف چلدی وہ بلکل بھول گئی تھی کہ وہ ایک ہرنی ہے ۔وہ سمجھ رہی تھی کہ اس نے جو چیتے کو بیوقوف بنایا تھا کل تو اب چیتا اس کے بارے میں کبھی سوچے گا بھی نہیں ۔مگر یے اسکی بھول تھی
۔ادھر وہ تالاب پر پانی پینے گئی ادھر چیتے نے موقع ملتے ہی ہرنی کو دبوچ لیا ۔اس چیتے نے اسے بے جان کر کے اس کے گوشت سے خوب انصاف کیا ۔ہرنی بیچاری اپنی غفلت میں ماری گئی۔ہائے افسوس ۔۔۔۔وہ بیچاری یہ تو بھول ہی گئی تھی کہ جس جنگل میں وہ رہتی ہے وہ تو ہے ہی چیتوں کی آماج گاہ ۔زرا سی نادانی اسے یا اس جیسی اور ہرنیوں کو ہلاکت میں مبتلا کر سکتی ہے اور وہ ہی ہوا زرا نظر چوکی اور کام تمام ہو گیا
*۔۔مگر اب پچھتائے کیا ہو ۔۔۔جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔۔*
*از قلم* ۔۔۔۔۔
*۔۔۔کنیز فاطمہ۔۔۔*
You must be logged in to post a comment.